کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 321
اگر آپ بلاتعصب تحقیق کریں تو معلوم ہوگا بے شمار NGOSاس پر کام کررہی ہیں اور مردودں کے ساتھ کئے گئے ظلم پر کوئی ایک یا دوNGOSہیں۔ عورتوں پر ظلم کی بات کو اچھالا جاتا ہےمگر اس کا کوئی حل یا جڑ سے ختم نہیں کیاجاتا، جڑ میں اصل مجرم کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی روپ میں بیٹھی اپنےبیٹے، بھائی، دیور، خاوند کو بہکارہی ہوتی ہے۔
عورت پر ظلم کیاجاتا ہے، میں اتفاق کرتی ہوں، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ مگر مردوں کو پالنے اور پروان چڑھانے والی اور شیر کا جگر دینے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو دوسری شادی پر اکسانے والی بھی کوئی نہ کوئی عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے بھائی یابیٹے کو کہتی ہے، بیوی کو آگ لگادو، تیزاب پھینک دو، طلاق دے دو، ہم تمہارے لئے نئی بیوی لے کر آئیں گے۔ کسی طرح کوئی گرل فرینڈ یہ جانتے ہوئے کہ مرد شادی شدہ ہے، بچوں کاباپ ہے، اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور کسی عورت کا گھر تباہ کردیتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ مرد کو اپنی عقل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا:’’مجھے اچھی مائیں دومیں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ‘‘گویا ذمے داری عورت پر آن پڑی ہے کہ اچھے مردوں کو جنم دینے والی عورت ہی ہے، ذمے داری ماں پر آگئی ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے اوراسے دوسری عورت کے حقوق ادا کرنےکی تعلیم دیتی ہے یا عورت کے حقوق غصب کرنے پر اکساتی ہے، عورت کا دل اس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے، اس کوکمزور کہنا اس کی توہین ہے۔ آؤ اس دن عہدکریں کہ ہم اپنی حفاظت کا ذمہ خود لیں گے
ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو