کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 320
اور کبھی مرد کی طرف سے اور کبھی اس میں دونوں برابر کے شریک ہوتےہیں۔ ان صورتوں میں صرف مرد ہی کوظالم تصور کرکے قانون سازی کرنا۔ اور وہ بھی یکطرفہ۔ قطعا غیر معقول ہے۔ ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ایک کونسلر اورماہرنفسیات لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدات ملاحظہ فرمالیں :ان کانام فوزیہ سعید ہے وہ ایک مضمون بعنوان:’’کیاصرف مردذمے دار ہے؟ تصویر کادوسرارخ۔ ‘‘میں لکھتی ہیں : ’’ 8مارچ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایاجاتاہے جس میں خواتین کو خراج تحسین پیش کیاجاتاہے، جگہ جگہ سیمینار کیے جاتے ہیں وہاں مردوں کے ظلم کی داستانیں اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ کچھ لوگ رونے لگتے ہیں۔ 2015ء کو میں نے کافی ورلڈویمن ڈے اٹینڈ کیےتمام کا فوکس مردوں کے ظلم، عورتوں کو جلائے جانے کے واقعات، عورتوں پر پھینکے گئے تیزاب یا تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھنے دینے یا وقت سے پہلے شادی کر کے ان کے حقوق غصب کرنے یا عمرگزرجانے پر بھی شادی نہ ہونے جائیداد میں ان کے حقوق پامال کرنے کونمایاں طور پربیان کیاگیا۔ بطور ماہرنفسیات میں نے نہایت ہی سوچ بچار کےبعد یہ تجزیہ کیا کہ 80فی صد واقعات میں عورتوں کا اپناقصور ہوتا ہے، میں ایک کونسلر ہوں، میں نے دیکھا ہے ہرظلم کے پیچھے اکیلا مرد ذمے دارنہیں، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے، بلکہ آپ بلاتعصب جائزہ لیں تو جومرد ظلم کرتا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ عورت اس کی ماں بھی ہوسکتی ہے، بہن بھی، بھابھی بھی، یا جدیددور کی نیورشتے دارگرل فرینڈبھی ہوسکتی ہے۔ پھرالزام مرد پر ہی کیوں ؟