کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 32
جاوید احمدغامدی جیسے لوگوں سے اسلام سیکھا ہے جس میں ناچ گانا اور رقص وسرور اور اس قسم کی دیگر ’’مغربیات‘‘ سب جائز ہیں۔ اور علماء تو اس اسلام کو جانتے ہیں جوقرآن وحدیث میں محفوظ ہے اوراس میں مذکورہ خرافات کی جس طرح گنجائش نہیں، زیربحث بل کی بھی گنجائش نہیں۔
’’جدیداسلام‘‘ کے ان’’مجتہدین‘‘ کی خدمت میں ہم یہ کتاب پیش کررہے ہیں تاکہ وہ عورت کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بھی سمجھیں کہ اسلام نے ان کو کیا مقام دیا ہے اور کس طرح اس کا مکمل تحفظ کیا ہے۔ اس سے ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ علماء اس بل کی مخالفت کے ذریعے سےعورتوں پر ظلم وستم کی صورتوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا اس کی مخالفت کرکے عورت کا تحفظ اور اس کو مزید ظلم سے بچانا چاہتے ہیں ؟
اصل میں دونوں کا۔ اخباری کالم نگاروں اور علماء کا۔ اسلام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور عورت کے تحفظ کا طریقہ کار بھی ایک دوسرے سے مختلف۔
علمائے اسلام کے نزدیک عورت سمیت تمام طبقات کا تحفظ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کے ذریعے ہی سے ممکن ہے۔ اس کتاب کے ذریعے سے عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا ایک خاکہ اہل ملک کے سامنے پیش کیا جارہاہے جس کو پڑھ کر ہر باشعور آدمی سمجھ سکے گا کہ علماء کی مخالفت معقول ہے یا غیر معقول، جائز ہے یا ناجائز، بلکہ ضروری ہے یا غیر ضروری ؟۔
اخباری ’’ مجتہدین ‘‘ کا اسلام قرآن وحدیث والا نہیں، وہ مغرب کی فکری کارگاہوں میں ڈھلا ہوا ہے، اسی لیے وہ قدیم نہیں، جدید ہے۔ یہ حضرات عورت کا تحفظ اسی جدید اور مغربیت والے اسلام کے ذریعے سے کرنا چاہتے ہیں۔
دونوں کے نقطہء نظر اور طریق کار کا یہ اختلاف ہی ٹکراؤ اور تصادم کا باعث ہے۔ یعنی ان کی زبانوں پر نام تو ’’ اسلام ‘‘ ہی کا ہے۔ لیکن وہ اسلام ہرگز نہیں، دین فرنگی ہے۔
یاراں عجب انداز دوررنگی دارند