کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 319
کاحق ہے کہ ایک فریق کے تحفظ کے لئے ایسی قانون سازی کرے کہ دوسرے فریق کے حقوق اس سے متأثر ہوں۔ تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یامفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس کے ذمےدار مرد ہیں۔ اس لئے عورتوں کے حقوق کاتحفظ ضروری ہے۔ اوّل تو یہ صرف مفروضہ اور پروپیگنڈہ ہے کہ ہر صورت میں عورت مظلوم اورمردظالم ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں جہالت اور اسلامی تعلیمات سے بے خبری عام ہے، جس کی وجہ اگر کبھی مردعورت پر ظلم کرتا ہے، تو عورت بھی کم وبیش کےکچھ فرق کے ساتھ اس معاملے میں مرد سے پیچھے نہیں ہے، وہ بھی مختلف انداز سے مرد پرظلم کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت میں صبر اورحوصلے کی۔ مرد کے مقابلے میں۔ کمی ہے( عورت مانے یا نہ مانے، یہ چیز فطری ہے) اگر اس پر ظلم ہوتا ہے وہ وایلا کرتی ہے اور مغربی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز بھی اس کو۔ نمک حلالی کے طور پر۔ خوب اچھالتی ہیں۔ جب کہ مرد کے اندر عزم وحوصلہ زیاد ہ ہے، وہ عورت کی طرف سے کی گئی زیادتی کوبالعموم نظرانداز کردیتا ہے جیسا کہ اس کوکرناہی چاہئے کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور اس کی قوامیت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر گھر کانظام چل ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 90فی صد گھرانوں میں چھوٹے موٹےتنازعات کے باوجود عورت امن وسکون کی زندگی گزار رہی ہے اور اس کو ان مسائل کاقطعاً سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کے لئے بل کی صورت میں پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ صرف10فی صد گھرانے بمشکل ایسے ہوں گے جہاں ایک دوسرے پرظلم کیاجاتا ہے جو کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے