کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 317
معاملہ کرتے ہوں، جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ہیں جن کو ہرباشعور شخص سمجھتا ہے۔
ریاست کی یقیناً ذمے داری ہےکہ وہ مزدوروں (محنت کشوں، ملازموں ) کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسی قانون سازی کرے کہ مظلومین کی دار رسی ہوسکے، ان کے حقوق کو کوئی پامال نہ کرسکے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جاسکے۔ لیکن حکومت مزدوروں کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین بنائے جن میں مالکان کے حقوق کونظر انداز کردیاجائے تو کیا یہ قانون سازی معقول کہلائے گی؟ یا ایسے قوانین سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا؟ یا اس کو اسلام کے مطابق قرار دیاجاسکے گا؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ نہ ایسی قانون سازی میں کوئی معقولیت ہوگی، نہ اس سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ہی ہوگا اور نہ اسے اسلام کےمطابق ہی کہاجاسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام مزدوروں پرظلم کوجائز قرار دیتا ہے، یا اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی وضاحت اور ان کے اہتمام کی تاکید نہیں ہے، یا ان کی بابت اسلامی ریاست کو ذمے دار قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں نہایت اعتدال اور توازن ہے، وہ اللہ کا بنایاہوانظام ہے اور اس میں تمام طبقات کے حقوق کاتحفظ کیاگیا ہے۔ اگر اس میں مزدوروں کی بابت نہایت اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں جن کا خیال رکھنا مالکوں کے لئے ضروری ہے تودوسری طرف مالکوں کی بابت بھی احکام دیےگئے ہیں جن کوملحوظ رکھنا مزدوروں اور ملازمین کے لئے ضروری ہے۔ جب تک دونوں کے حقوق کا تعین اور ان کاتحفظ یکساں طور پر نہیں کیاجائے گا، کسی بھی ملک کانظام چل ہی نہیں سکتا۔