کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 31
ورنہ یہ مغرب گزیدہ لوگ بتلائیں کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کون ساطبقہ ہے جو لوگوں کے ظلم وستم سے، سرکاری اہل کاروں کی فرعونیت سے، حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے، عدالتوں میں ناجائز مقدمات کی بھرمار اور ججوں کی انصاف فروشی سے، قبضہ گروپوں اور پٹواریوں کی ظالمانہ حرکتوں سے اوراہل سیاست کی تماش بینیوں سے محفوظ ہے؟ کیا صرف عورت ہی ہمارے معاشرے میں مظلوم ہے؟ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ نوے فی صد گھرانوں میں عورت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ صرف بہ مشکل۱۰فی صد لوگ ہوں گے جو عورت کے ساتھ ناجائز برتاؤ کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ صرف ان کی جہالت، یا غربت، یااسلامی تعلیمات سے بے خبری ہے۔ یہی لوگ حق طلاق کا بھی ناجائز استعمال کرتے ہیں جس کاخمیازہ صرف عورت ہی نہیں بھگتتی بلکہ مرد کو بھی اور اس کی اولاد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان چند فی صد خواتین کی بھی داد رسی کرے اور ان کوظلم وستم سےبچانے کے لئے علماء کی مشاورت سے قانون سازی بھی کرے کیونکہ علماء کسی ایک عورت کے ساتھ بھی ظلم وستم کے معاملے اور رویے کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن مظلوم عورتیں ہی نہیں، اگرچہ وہ چند فی صد ہی ہیں، تمام مذکورہ طبقے ہی مظلوم ہیں۔ حکومت گڈگورننس کادعویٰ کرتی ہے۔ کیا یہی گڈ گورننس ہے کہ ملک میں کسی طبقے کو تحفظ حاصل نہیں ؟ کیا یہی گڈ گورننس ہےکہ ہرچھوٹا بڑا سرکاری اہل کارفرعون بنا ہوا ہے اور دودو ٹکوں کے اہل کاروں کے سامنے ملک کے بڑے بڑے شرفاذلیل وخوار ہونےاور ان کو حرام کھلانے پرمجبور ہیں ؟ اخبارات کے’’مجتہد‘‘ کالم نگاروں نے بھی ہاہاکار مچائی ہوئی ہے کہ علماء یوں ہی بل کے خلاف شور کررہے ہیں۔ لیکن وہ کسی شق کو بھی خلاف اسلام ثابت نہیں کرسکتے۔ ان کا یہ دعویٰ اس لحاظ سے واقعی درست ہے کہ ان بے چاروں نے غلام احمدپرویز،