کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 30
پاکستان کاآئین بھی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی جب کہ یہ بل سراسرقرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔ بنابریں یہ بل آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے اور قوانین الٰہیہ کے بھی برعکس کہ اس میں مردوں والامقام عورت کو اورعورتوں والامقام مردوں کو دینے کی مذموم سعی کی گئی ہےجو ایک مسلمان معاشرے میں نہ صرف یہ کہ ناقابل قبول ہے بلکہ یکسر ناقابل عمل ہے۔
علماء بجا طور پرسمجھتے ہی نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس بل سے عورت کو قطعاً کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوگابلکہ اس کوجتنا کچھ تحفظ۔ لوگوں کی جہالت اور اسلام کی تعلیمات سے ناآشنائی کےباجود۔ ملا ہوا ہے، وہ اس سے بھی محروم ہوجائے گی۔
کیونکہ تمام تر بے عملی اور اسلام سے ناآشنائی کے باوجود، مرد کی فطری قوّامیت کا تصور مسلمان کے ضمیر اور خمیر میں گندھا ہوا ہے۔ جو عورت اس فطری تصور کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مرد کی اطاعت گزار اور وفاشعار بن کر امور خانہ داری سرانجام دیتی ہے، نوے فی صد مسلمان مرد بھی عورت کی عزت ووقار کوملحوظ رکھتے اور ان کی ہرطرح نازبرداری کرتے ہیں۔ اور یوں نوے فی صد گھروں میں الحمدللہ امن وسکون ہے اور وہ دونوں عسرویُسر میں ایک دوسرےکے ساتھی اور تکلیف وراحت میں ایک دوسرے کےہمدرد وغم خوار ہیں۔
مغرب کو اور مغرب زادوں کو یہی غم کھائے جارہا ہے کہ مسلمان عورت کو بے پردہ کرنے کے باوجود ان کاحرم ابھی تک محفوظ ہے جب کہ مغرب میں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ مسلمان عورت کو مسلمان گھرانوں میں جوتحفظ ملا ہوا ہے، وہ اس میں نقب لگا کر اس حصار کو توڑنا چاہتے ہیں۔
عورت کے بارے میں اس طرح کی قانون سازی کرکے، جس کا ایک نمونہ زیربحث بل ہے، مغربی شاطر اور ان کے فتراک کے نخچیر مغرب کی حیاباختہ تہذیب کو یہاں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔