کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 298
طلاق اور اس کا طریقہ 1۔ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہو جانے کے بعد اکثر مذاہب میں علیحدگی اور طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے حالانکہ بعض دفعہ جب دونوں کے مزاجوں میں موافقت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکے تو طلاق اور علیحدگی ہی میں دونوں کی بھلائی ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے تاہم مرد کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے اس حَق طلاق کو آخری چارۂ کار کے طور پرہی استعمال کرے۔ اس سے پہلے اصلاح کی جو چار تدابیر اللہ نے سورۃ نساء میں بیان فرمائی ہیں (جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے) ان کو بروئے کار لایا جائے۔ پھر بھی بات نہ بنے تو پھر طلاق کا فیصلہ کیا جائے۔ 2۔ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد بھی یوں ہی طلاق نہ دی جائے بلکہ اس کے لیے یہ طریق کار بتلایا گیا ہے کہ ایامِ حیض میں طلاق نہ دی جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر برہمی کا اظہار فرمایا تھا جب انھوں نے ایام حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ بلکہ اس وقت طلاق دی جائے جب بیوی کے ایام حیض ختم ہو جائیں اور وہ پاک ہو جائے، اس حالت کوطُہرکہا جاتا ہے تو حکم یہ ہے کہ حالتِ طُہرمیں طلاق دی جائے اس سے صحبت کیے بغیر۔ اس حکم کا فائدہ یہ ہے کہ اکثر مردحقِ طلاق کا بے جا استعمال کرتے ہوئے وقتی طور پر اشتعال اور غصے میں فوراً طلاق دے بیٹھتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ جب کہ ہم میاں بیوی کا نباہ صحیح طریقے سے ہو رہا ہے۔ اگر اشتعال اور غصے میں طلاق نہ دی جائے اور ایسے طُہر کا انتظار کیا جائے جس میں خاوند نے بیوی سے ہم بستری نہ کی