کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 297
اختیار کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی یہ کام نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کے برعکس وہاں مسلمان بچوں اوربچیوں کو اسلام سے بیگانہ بنایاجارہا ہے۔ اور ان سب پر مستزاد الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا(ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات وغیرہ) مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اسلامی تہذیب اور اسلامی اقدار وروایات سے دور کرکے ان کے اندر مغرب کی حیاباختہ تہذیب او را س کی اقدار کوفروغ دے رہے ہیں۔
ان حالات میں گھر ہی ایک ایساحصار ہے جہاں مسلمانوں کی نسلِ نو کوالحاد اور بے دینی کے جھکڑوں سے اور بے حیائی کے سیلاب سے بچایاجاسکتا ہے اور گھرمیں ماں ہی وہ واحد استانی اورمعلّمہ ہے جوبچوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرسکتی ہے، کیونکہ باپ تو فکرمعاش ہی میں الجھا رہتا ہے۔
اور ماں یہ کردار تب ہی ادا کرسکتی ہے جب وہ خود زیورتعلیم سے آراستہ اور دینی جذبہ وشعور سے بہرہ ورہو۔ اور ایک ماں کے اندر یہ خوبی دینی تعلیم حاصل کیے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی اگر وہ بہرہ ور ہوتوماشاء اللہ۔ لیکن عصری تعلیم کامقصد محض ملازمت اور مردوں کے دوش بدوش ہرشعبۂ زندگی میں نفوذ نہ ہو بلکہ اس سے بھی مقصود اپنے ہی بچوں کی تعلیم وتربیت اور امورخانہ داری کوزیادہ بہتر انداز سے سرانجام دینا اور دنیاوی معاملات میں خاوند کاہاتھ بٹانا ہو، اور بس۔
٭٭٭