کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 296
بنادیتے ہیں۔ ‘‘ [1]
یعنی اس کےذہن کے تختۂ سیاہ پر جس مذہب کی تحریر بھی درج کردی جائے، وہ النقش فی الحجر(پتھر پرلکیر) کی طرح اس کے لوح قلب پر ثبت ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مائیں اگرصحیح مسلمان ہوں گی، اسلامی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گی اور اسلامی جذبات واحساسات سے سرشار ہوں گی تو ان کی گودوں میں پلنے والے بچے بھی صحیح مسلمان ہوں گے، ان کی تعلیم وتربیت سے اسلام کی حقانیت وصداقت کا نقش ان کے دل ودماغ میں ثبت ہوجائے گا اور اس کی تعلیمات کو اپنانے کاسچاجذبہ ان کے اندر پیدا ہوگا۔
ایک عورت کو اسلامی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنےکامطلب ہے کہ ایک پورے خاندان کو اسلامی سانچے میں ڈھال دینے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ یہ اسلامی معاشرے کو سدھارنے کاایک فطری طریقہ ہے کیونکہ خاندانوں ہی سے قبیلے اور برادریاں بنتی ہیں اور قبیلے اوربرادریاں پھیل کر معاشرہ بنتی ہیں۔ اگرمذکورہ فطری طریقے کے مطابق ہر خاندان کے سربراہ، ماں اور باپ۔ اپنے اپنے زیرکفالت اور زیرتربیت خاندانوں کی صحیح تربیت کا اہتمام کریں تو معاشرتی اصلاح کاآغاز ہوسکتا ہے، بشرطیکہ ماں ایک معلّمہ، مبلّغہ اور داعیہ کا کردار ادا کرے۔
آج کل کی حکومتوں نے قوم کی معاشرتی اور اخلاقی اصلاح او ر ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کے اہم ترین کام کو پس پشت ڈال کر اس فریضے سے یکسر غفلت اور بے اعتنائی
[1] صحیح البخاری:کتاب الجنائز، باب ماقبل فی اولاد المشرکین، حدیث:1385