کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 295
لیکن اس علم سے مراد سائنس وٹیکنالوجی اور دیگر شعبۂ ہائے زندگی سے متعلقہ علوم وفنون نہیں بلکہ وہ علم ہے جس سے حلال وحرام، جائز وناجائز کی پہچان ہو، یعنی قرآن وحدیث کاعلم۔ دوسرےعلم کا تعلق کسب معاش سے ہے جوصرف مرد ہی کی ذمے داری ہے، وہ علم قرآن وحدیث کے ساتھ دیگر علوم بھی حاصل کرے گا لیکن عورت پر چونکہ معاش کی ذمے داری نہیں۔ بنابریں اس کے لیے صرف قرآن وحدیث کی تعلیم ضروری ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے وہ فرائض بھی خوش اسلوبی سے ادا کرسکے جو اولاد کی تربیت کے حوالے سے اس پرعائد ہوتے ہیں۔ کیونکہ تربیت اولاد میں ماں کاکردار بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ اولاً:تو اس لئے کہ ماں کی گود ہی بچے کا وہ پہلا گہوارہ ہےجہاں وہ آنکھیں کھولتا ہے۔ اس کی کل کا ئنات ماں کی شفقت ومحبت ہی ہوتی ہے، ماں کی محبت آمیز مسکراہٹ اور شفقت بھراہاتھ اس کاسہارا ہوتا ہے۔ اور ماں کی چھاتی سے اسے وہ لطیف غذا ملتی ہے جس سے اس کی جسمانی نشونما ہوتی ہے۔ ثانیاً: جب وہ چلنے پھرنے لگتا ہے اور کچھ بول اس کی زبان سے نکلنے شروع ہوتے ہیں تو باپ توکسب معاش میں سرگرداں ہوتا ہے، ماں کی گود ہی اس کاپہلا مدرسہ بنتی ہے، اس وقت بچے کاذہن سلیٹ یابلیک بورڈ کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے، اس پر جوبھی لکھ دیا جاتا ہے، یعنی اسے ذہن نشین کرایاجائے، وہ اس کے دل ودماغ میں نقش ہوجاتا ہے۔ اسی بات کو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ((كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُھَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ)) ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یانصرانی یامجوسی