کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 292
اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے رویے کاذکر کرکے اس کو برافیصلہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ O يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰي هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ﴾ [النحل 16: 58، 59] ’’اور جب ان میں سے کسی کوبیٹی(پیدا) ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کاچہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غم وغصے سے بھرا ہوتا ہے، وہ اس عار کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے جس کی اس کوبشارت دی گئی ہے(سوچتا ہے) کیا (اپنی) توہین کے باوجود اسے باقی رکھے یا اسے مٹی میں دبادے؟ آگاہ رہو! بہت برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ ‘‘ لڑکی کی بہتر ثابت ہوسکتی ہے بنابریں ہرمسلمان کو اللہ کی رضا اور مشیت پر راضی رہنا چاہیے۔ یہی ایک مسلمان کی شان اور اس کاکردار ہے۔ علاوہ ازیں کسی کو یہ پتا نہیں کہ وہ لڑکے کی پیدائش پر خوش ہورہا ہے، لیکن اسی بچے کے جوان ہونے کے بعد اسے اپنے اس بچے کے کردار کی وجہ سے اپنی قسمت پرماتم کرنا پڑ جائے؟ یا جس بچی کی پیدائش پر وہ ناراضی اور کراہت کا اظہار کررہا ہے، وہی بچی اس کے بڑھاپے کاسہارا اور دیگر افرادِ خاندان کےلیے نہایت بابرکت ثابت ہو۔ دنیا میں یہ دونوں ہی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَئًْا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَئًْا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ [البقرۃ216]