کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 290
قَدِيْرٌ﴾ [الشوریٰ:49۔50]
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہے(صرف) بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے، یا ان کو بیٹے اوربیٹیاں ملاکردیتا ہے، اور جسے چاہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ خوب جاننے والا، بہت قدرت والاہے۔ ‘‘
اللہ کے اس اختیار اورحکمت ہی کانتیجہ ہے کہ نوع انسان ایک بہت بڑے اختلال وفساد سے محفوظ ہے۔
یہ انسان کے سوچنے کاکام ہے کہ جس معاملے میں وہ یکسر بے اختیار ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی عطاپرناراض ہونے کاکیا جواز ہے؟ قطعاً نہ کوئی جواز ہے اور نہ عقل ودانش مندی ہی کامظاہرہ۔ جوبھی اللہ دے دے۔ لڑکا یالڑکی۔ اللہ کی نعمت ہے، کسی کی نہ ناقدری کرنی ہے اور نہ اس کاشکوہ۔ دانش مندی یہی ہے کہ رضائے الٰہی پر راضی رہے اور تقدیر پر صابروشاکر۔
لڑکیوں کی پیدائش میں چونکہ اللہ کی بڑی حکمت ہے، اس لیے جوشخص اللہ کی اس نعمت کی قدر کرتا اورخوش دلی سے اس کوپالتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے اور اس کے لیے اس نے اخروی اجروثواب رکھا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَهُ))
’’جس نے دولڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں، قیامت کےدن میں اور وہ اس طرح آئیں گے اور آپ نے(اشار ہ کرتے ہوئے) اپنی انگلیوں کوملایا(جس طرح انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں، لڑکیوں کی پرورش کرنے والا بھی