کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 29
عرض مؤلف
جب سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے ’’تحفظ حقوق نسواں ‘‘ بل پاس کیا ہے، اس وقت سے ہی علماء اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس کی کیاوجہ ہے؟
کیا علمائے اسلام، عورتوں پر بے جاتشدد اور ناجائز تعدّی اور ظلم کو پسند کرتے ہیں ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ تو عورت کو گھر کی ملکہ سمجھتے اور ملکہ ہی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام نے عورت کو یہی مقام دیا ہے۔ علماء اس کے اس مقام کا تحفظ چاہتے ہیں۔
وہ عورت کے کسب معاش کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو عورت کاحق نہیں سمجھتے بلکہ اس میں اس کی ذلت اور اس پر ظلم سمجھتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام نے اس پر یہ ڈبل بوجھ نہیں ڈالا ہے کہ وہ حمل اور ولادت کی تکلیفیں بھی برداشت کرے، امور خانہ داری بھی انجام دے، خاوند کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال بھی کرے اور اس کے ساتھ دفتروں اور کارخانوں میں کلر کی اور مزدوری بھی کرے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس کوپہلے کاموں (گھریلوامور) کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے اندر صلاحیتیں بھی اسی انداز کی رکھی ہیں تو بیرون درکے کاموں کابوجھ اس پر کیوں ڈالا جائے؟ جب اللہ نے اس پر یہ دوہری ذمے داری نہیں ڈالی ہے تو مغرب کے نظریۂ مساوات کی بھونڈی نقالی میں علماء عورت پراس ظلم کو کب جائز قرار دے سکتے ہیں ؟
وہ اس کے نہ مجاز ہیں اور نہ ان کا منصب ہی اس کوبرداشت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔