کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 284
آخرت کی بربادی ہے۔ اور خاوند اگربخیلی کا ارتکاب کرے یعنی بیوی کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی مناسب رقم نہ دے یااز خود اشیائے ضرورت حسبِ ضرورت مہیا نہ کرے تو عورت کو گھر کانظام چلانے میں مشکلات پیش آئیں گی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو، جب انہوں نے اپنے خاوند کی بخیلی کاذکر کیا اور کہا کہ وہ مجھے اتنا خرچ بھی نہیں دیتے کہ جومجھے اور میرے بچوں کو کافی ہوجائے، الا یہ کہ میں ان کی لاعلمی میں کچھ رقم لے لوں، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ، بِالْمَعْرُوفِ)) ’’ہاں، تم دستور کے مطابق( ان کو بتلائے بغیر) اتنی رقم لے لیا کروجو تمہیں اور تمہارے بچوں کوکافی ہوجایاکرے۔ ‘‘[1] حضرت فاطمہ اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے سبق آموز واقعات عہد رسالت کی خواتین نے کس طرح عسرت وتنگ دستی میں گزاراکیا، حتی کہ ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں، وہ مسلمان عورتوں کے لیے قابل نصیحت ہیں۔ ایسے کچھ واقعات اس سے قبل بھی بیان ہوچکے ہیں، چند واقعات اور سن لیں۔ 1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر میں خود ہی چکی پیستی تھیں جس سے ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے، ان کے علم میں یہ بات آئی کہ کچھ غلام آئے ہیں (جوضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم ہونے ہیں تو)وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی یہ پریشانی بیان کرنے کے لیے آئیں اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آکر بات کی اور کہا کہ ان حالات میں بھی ان کوغلام نہیں ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر
[1] صحیح البخاری:کتاب النفقات، باب9حدیث:5364