کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 283
﴿وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾ [الفرقان 67] ’’اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی (بخیلی) ہی۔ اور ان کاخرچ اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔ ‘‘ تفسیر ’’احسن البیان‘‘میں اس آیت کے تحت لکھا ہے۔ ’’اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف (فضول خرچی) اور اللہ کی اطاعت (نیکی کے کاموں ) میں خرچ نہ کرنا اقتار(بخیلی) اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرناقَوّام (اعتدال) ہے۔ (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات (جائز کاموں ) میں حد اعتدال سےتجاوز بھی اسراف میں آسکتا ہے اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔ ‘‘ اس کتاب میں اس موضوع پرمذکورہ گفتگو کامقصد اس پہلو کی وضاحت ہے کہ میاں بیوی اپنی زندگی کے تمام معاملات اور معمولات میں اگر اخراجات میں اس اعتدال کوملحوظ رکھیں اور پُر آسائش اور پُرتکلف زندگی کے بجائے سادگی اور تواضع کو اختیار کریں تو نہایت آسانی سے گھرکابجٹ متوازن رہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کےساتھ تعاون کریں۔ نہ بیوی خاوندسےغیر ضروری مطالبات کرے اور نہ خاوند ہی ضروری اخراجات میں تنگی اور بخیلی کا مظاہرہ کرے، یہ دونوں ہی رویے غلط اور ناپسندیدہ ہیں۔ بخیل خاوند کی بیوی کے لیے ایک اجازت فضول خرچی سے خاوند کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں کہ جائز اور حلال آمدنی اس کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے، پھر وہ ناجائز ذرائع آمدنی اختیار کرتا ہے جس میں اس کی