کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 279
اعتماد کرتی ہے۔ اور محنت کرنا اور حالات سے نبرد آزماہونا، اس قسم کے تمام تربوجھ وہ صرف مرد کے کاندھوں پر ڈالتی ہے۔ اور آج بھی جبکہ زمانے نے اتنی ترقی کرلی ہے، عورت یہی سب مرد سے چاہتی ہے۔ کیونکہ یہ عین فطرت، کے مطابق ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے مرد کو توانا اور طاقتور جسم دیا، اس کے اعصاب ایسے بنائے جو ناگوار حالات اورمشکلات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس کے بالمقابل عورت نازک بدن ہوتی ہے۔ اس کے جذبات بڑے حساس ہوتے ہیں۔ اس کے اندر تحمل اور برداشت کا مادہ بھی کم ہوتا ہے۔ اب اگر اسلام نے حقائق کو واقعہ کے عین مطابق پیش کیا تویہ عین عدل ہوا۔ یہ تواسلام کی حقیقی صورت گری ہے، اوراس کے مطابق اس کا یہ فیصلہ ہے کہ مرد عورتوں کے نگراں اورحاکم ہیں۔ کیا آج عورت یہ چاہتی ہے کہ نگرانی اور حاکمیت کا سہرا وہ اپنے سرباندھے؟ نہیں ! نگرانی تو دراصل جوابدہی کا نام ہے۔ نگرانی مشکلات اورپریشانیوں کے مردا نہ وار مقابلہ کا نام ہے، نگرانی ذمےد اریوں کے سنبھالنے کانام ہے۔ اور نگرانی کے اسی پھیلے ہوئے مفہوم کے ساتھ ایک نگراں کار کسی ہیبت یاخودغرضی کے بغیر اپنی ذمےد اریوں کو ٹھیک ٹھیک انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ تحریک نسواں کا شور مچانے والے اب تک یہ سمجھتے رہےہیں کہ مرد کی نگرانی اور حاکمیت اس وقت تک برقرار تھی جب تک وہ خود تنہا کماتا تھا۔ اور پیداوار کے کل ذرائع اس کے زیرنگیں ہوتے تھے، لیکن آج پانسہ پلٹ گیا ہے۔ آج عورت بھی کماتی ہے اور پیداوار کے ذرائع پر اس کا بھی تسلط ہے۔ اس لیےعورت پر مرد کی نگرانی اب نہیں چلنی