کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 278
دنیا کے لحاظ سے عورت سے افضل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ ﴾ [آل عمران:195] ’’تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی(اور فرمایا) میں تم میں سے کسی نیک عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کی جنس ہو۔ ‘‘ بلکہ یہ نگرانی درحقیقت ایک اصولی تنظیمی صلاحیت ہے، جس کےذریعے سماجی و تعمیری ضوابط اور دنیا کی زندگی میں اعلیٰ قدروں کی بحالی ضروری ہے، اور اسی کے التزام سے زندگی مجموعی طور پر سلامت ہوتی ہے۔ غرض مرد کی نگرانی رؤساء اور سرداران قوم کی نگرانی کی طرح ہے۔ اگر کوئی سردار ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سارے ہی ماتحتوں سےوہ اعلیٰ اور افضل ہے۔ اس کے باوجود ان کی نگرانی تمام انسانی سماج پر قائم ہوتی اور ان کے خلاف یورش یا بغاوت کرنے سےگنہگار ہونے کااندیشہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ماتحت سردارسےفضل وکمال، عمل ومعرفت اور دینداری میں بڑھ سکتا ہے۔ [1] اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن پاک میں اپنے اس ارشاد:﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النساء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ﴾ میں خاندان کی نگرانی مرد کے حوالہ کیوں کرتاہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ اسلام نے اس سلسلے کا یہ کوئی نیا انوکھا یا نامانوس قدم نہیں اٹھایا۔ اس لیے کہ تاریخ کی اتبداء سے عورت نے مرد کے بازو میں رہ کر ہی چین کاسانس لیا ہے۔ اپنے اور بچوں کے بارے میں وہ صرف اپنے شوہر پر ہی
[1] ماخوذ از، ہمارے قلعوں کو درپیش اندورنی خطرات، کاخلاصہ :139۔142