کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 275
رائے کو زبردستی عورتوں پر مسلط کرلینا سمجھ رکھا ہے۔ اس غلط ذہنیت کی وجہ سے انہوں نے عورتوں کے ساتھ بدترین رویہ اختیار کیا۔ نگرانی کے اس لفظ کو بعض عورتوں نے بھی غلط سمجھا، چنانچہ انہوں نےمردوں کو کسی شمارقطار میں نہیں رکھا اور خودسری، لڑائی اور علیحدگی کا راستہ اختیار کیا حالانکہ مردوزن دونوں ہی اپنے اورایک دوسرے کے حقوق کو سمجھ لیں تو ہر کوئی سعادت مندی، سلامتی اورخیروبرکت کےساتھ خود بھی زندہ رہے گا اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے دے گا۔ ایک ماہر سماجیات لکھتا ہے: ’’آج ازدواجی زندگی میں وہ نہیں ہوتا، جس کو ہم ’’دوستی اور رفاقت‘‘ کانام دے سکتے ہیں۔ درحقیقت ازدواجی زندگی کی حیثیت موٹر کار کی سی ہوتی ہے، جس پر دو آدمی سوار ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ دونوں کی منزل ایک ہوتی ہے۔ لیکن اسٹیرنگ وھیل پر ایک ہی آدمی بیٹھ سکتا ہے۔ کیونکہ بیک وقت دونوں آدمی کار کی ڈرائیونگ نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مرد جب اس کشتی کا ملاح ہوتا ہے اور فطری طور پر ایساہی ہونا چاہیے تو عورت کوبھی اپنا فطری کردار ادا کرنا ہوگا، یعنی یہ کہ وہ مرد پر اعتماد کرے، اس کی ہمت بندھائے، اسے تسلی دے اور سامان سفر کی تیاری اور درستی میں مرد کا ہاتھ بٹائے اور اگر عورت زمام کام سنبھالے تو مرد کافرض ہے کہ ایک مبصر اور سیاحت کرنے والے کا کردار انجام دے۔ اور عورت کے دماغ کو خواہ مخواہ کے بوجھ سےمتأثر نہ کرے جس سے وہ بیچاری تنہا پریشان ہو اور نہ ہی بجائے اس کاحوصلہ بڑھانے کے اس کی دل شکنی کی کوشش کرے۔ قرآن پاک میں باری تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النساء بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾ [النساء:34] ’’مرد عورتوں کے نگران اور حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک صنف (قوی)