کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 274
فرمایا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ اس حقیقت کےپیش نظر اللہ نے دونوں کے دائرہ ہائے کار بھی ایک دوسرے سے مختلف متعین کیے ہیں۔ مرد کا دائرۂ کار گھر سے باہر کا ہے اور عورت کا دائرۂ کار گھریلو امور ومعاملات ہیں۔ اس دائرے میں دیگر بعض صلاحیتوں کے ساتھ مرد کو قوّامیت (حاکمیت) کادرجہ بھی عطا کیا گیا ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بہ حیثیت انسان ہونے کے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے انسانی حقوق میں دونوں یکساں ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق مساوی طور پر ادا کرنے کاحکم دیاگیا ہے۔ اسی طرح نیکی اور سعادت میں دونوں کے لیے میدان کھلاہے، وہ ان میں زیادہ سے زیادہ محنت وریاضت کرکے اللہ تعالیٰ کےہاں زیادہ سے زیادہ مقام وفضیلت حاصل کرسکتے ہیں۔ مسئلہ زیربحث میں افراط وتفریط کامظاہرہ آج کل لوگ پہلی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے ہر جگہ انسانی معاشرے فساد اور ابتری کاشکار ہیں یاا گر کوئی مانتا ہے تووہ اس حاکمیت کامطلب عورت پر ظلم وزیادتی کی اجازت سمجھتا ہے، اس سے بھی اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس افراط وتفریط پر ایک کتاب کے فاضل مصنف نے بڑے عمدہ پیرائے میں بحث کی ہے، ہم اس کی افادیت واہمیت کے پیش نظر اس کو یہاں نقل کرنامناسب سمجھتے ہیں۔ مذکورہ مصنف لکھتا ہے: ’’افسوس! اس نگرانی کا مفہوم بعض مردوں نے تسلط، قبضہ، تکبر، غلام بنالینا اور اپنی