کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 273
گی، مردوں کی طرح ان کا پوراپورا صلہ انہیں ملےگا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کار کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جومحض آروز سے تبدیل نہیں ہوسکتا، البتہ اس کے فضل سے کسب ومحنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے، اس کے لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ محنت کرنی چاہیے کیونکہ نیکی اور اطاعت کے اجر وصلے میں مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ ﴾ [آل عمران:195] ’’پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کاعمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ کوئی مرد ہو یاعورت، تم آپس میں ایک دوسرے کےہم جنس ہو۔ ‘‘ یعنی نیکی کاصلہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرد وعورت کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہوگی اور اس کی وجہ بھی اللہ نے بیان فرمادی کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو، یعنی اجرواطاعت میں تم مرد اور عورت ایک ہی ہو(ایک جیسے ہی ہو) اس آیت کے شان نزول سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری، ابن کثیر وفتح القدیر) بہرحال اس تفصیل سےد وحقیقتوں کی وضاحت مقصود ہے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو الگ الگ مقصد کےلیے پیدا