کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 272
کوحاصل ہے، عورت کونہیں۔
انسانی معاشرے کی بہتری اسی میں ہے کہ عورت مرد کی اس فطری برتری کو تسلیم کرے، اس کو نہ چیلنج کرے اور نہ اس میں مساوات کا دعویٰ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو حکم الٰہی سے انحراف بھی ہوگا اور معاشرہ بھی فسادااوربگاڑ کاشکار ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ﴾ [النساء 32]
’’اور اس مقام ومرتبہ کی خواہش مت کرو جس کے ساتھ اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں نے جوکمایا اس میں ان کاحصہ ہے اور عورتوں نے جو کمایا اس میں ان کاحصہ ہے اور تم اللہ سے اس کافضل مانگتے رہو۔ ‘‘
اس آیت کے شان نزول میں بتایاگیا ہےکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں، ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں، ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [1]
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت وطاقت اپنی حکمت وارادے کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد کرتے اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں، یہ ان کے لیے اللہ کاخاص عطیہ ہے، اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہیے، البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں
[1] مسند احمد(6؍322)