کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 270
مرد کی حاکمیت کامسئلہ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النساء بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ﴾ [النساء:34]
’’مرد عورتوں پرحاکم( قوّام) ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال(ان عورتوں پر) خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘
یہ مسئلہ گزشتہ صفحات میں بھی گزر چکا ہے، یہاں اس کی خصوصی اہمیت کی وجہ سے دوبارہ بیان کیا جارہا ہے، اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو فوقیت (برتری) عطا فرمائی ہے، اس کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک وجہ وہبی( اللہ کی عطا کردہ) ہے اور دوسری وجہ کسبی ہے، یعنی انسان کی محنت کا اس میں دخل ہے۔ وہبی فضیلت سے مراد وہ مردانہ قوت اوردماغی صلاحیت ہےجس میں مرد عورت سے خلقی(پیدائشی) طور پر ممتاز ہے۔ اور کسبی سے مراد وہ معاشی جدوجہد ہے جس کامکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اورمخصوص تعلیمات کی وجہ سے، جو اسلام نے عورت کی عفت وحیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لیے ضروری بتلائی ہے، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔
عورت کی سربراہی کےخلاف قرآن کریم کی یہ نصِ قطعی بالکل واضح ہے جس کی تائید