کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 264
((نَعَمْ، وَلَھَا اَجْرَانِ، اَجْرُ الْقَرَابَۃِ وَاَجْرُ الصَّدَقَۃِ))۔ [1] ’’ہاں وہ اپنے خاوند کو صدقہ دے سکتی ہے، اس میں اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک حقِ قرابت کی ادائیگی کا اجر اور ایک صدقے کا اجر۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اگر غریب ہو، اس کی آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں اور بیوی صاحبِ حیثیت ہو یا اس کے پاس بمقدار نصاب طلائی زیور ہوں تو اس کے لیے زکوٰۃ کی رقم اپنے خاوند کو دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ افضل ہے، اس طرح وہ ڈبل اجر کی مستحق ہو گی۔ اسی طرح زیر پرورش یتیم بچوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا بھی دگنے اجر کا باعث ہے۔ تا ہم خاوند اپنی زکوٰۃ کی رقم اپنی بیوی اور اپنے بچوں پر خرچ نہیں کر سکتا، کیونکہ ان کے نان نفقہ کا ذمے دار وہ خود ہے، وہ یہ ذمے داری اصل مال سے ادا کرے گا نہ کہ مالِ زکوٰۃ سے۔ عورت چونکہ خاوند کے نان نفقے کی ذمے دار نہیں ہے اس لیے وہ اس کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ ٭٭٭
[1] صحیح البخاري:کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج والأیتام فی الحجر :حدیث، 1466