کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 259
ہوجاتی ہیں، جو دو ارب افراد کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن۔ (ایف اے او)نے اپنی رپورٹ میں بتا یا ہے کہ دنیا میں ہرسال ایک ارب 30کروڑ ٹن اشیا ء خراب یا ضائع ہوتی ہیں، جو کل پیداوار کا ایک تہائی ہے۔ اس ضیاع کوروکا جائےتودنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی یعنی دو ارب افراد کی غذائی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ ترقی پذیر ممالک میں ناقص سہولیات کے باعث کاشت، نقل وحمل اور سٹوریج کے دوران غذائی اشیاء خراب ہوتی ہیں جبکہ امیرممالک میں خریدارکی جانب سے ضیاع سب سے زیادہ ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں ہر سال اوسطاً ہر خریدار سوکلو غذائی اشیاء ضائع کرتا ہےجب کہ افریقہ میں یہ ضیا10کلو سالانہ سے بھی کم ہے‘‘(روزنامہ آواز۔ لاہور)
یہ توغذائی اشیاءکا وہ ضیاع ہےجس کا سد ِ باب اگر کردیا جائے تو یہ موجودہ غذائی ذخائر ہی مزید دو ارب انسانوں کی خوراک کے لیے کافی ہیں۔
اس کے ساتھ اگر فضولیات کی مد میں اربوں روپوں کا جو ضیاع ہورہا ہے اسے اگر روک لیا جائے تو اتنے زیادہ مالی وسائل مہیا ہوسکتے ہیں کہ جس سے معیشت میں ایک نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ مثلاً: سگریٹ نوشی ہے جس پر ایک رپورٹ کے مطابق گیارہ ارب روپے سالانہ برباد کر دیے جاتے ہیں۔ بر ِصغیر پاک و ہند میں پان نوشی ہے، پوری دنیا میں سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات کا سلسلہ ہے، عورتوں کے غازہ ولپ اسٹک(میک اپ)کا بڑھتا ہوا بے ہودگی کا مسئلہ ہے۔ عورتوں کے نت نئے فیشنوں اور اسٹائلوں کے لیے بے پناہ اخراجات ہیں اور اس طر ح کے دیگر غیر ضروری اخراجات ہیں۔ ان پر