کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 255
کثرت اولاد یا قلتِ اولاد، اسلام نے کس کی ترغیب دی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: ((اِنِّی أَصَبْتُ امْرَأَۃً ذَاتَ جَمالٍ وَحَسَبٍ وَأَنَّھَا لَا تَلِدُ أَفَأَتَزَوَّجُھَا بِھَا، قَالَ : لَا، ثُمَّ اتَاَہُ الثَّانِیَۃَ فَنَھَاہُ، ثُمَّ اَتَاہُ الثَّالِثَۃَ، فَقَالَ: تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ، فِإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ)) [1] ’’مجھے ایک عورت مل رہی ہے جو خوبصورت اور اچھے خاندان کی ہے، البتہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے، کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ‘‘ وہ دوبارہ آیا، آپ نے پھر اس کو روک دیا، پھر وہ تیسری مرتبہ آیا، تو آپ نے فرمایا: (محض حُسن اور خاندان مت دیکھو بلکہ) بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (قیامت کے دن) تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ ‘‘ کوئی عورت زیادہ بچے پیدا کرے گی یا کم کرے گی یا بالکل ہی نہیں کرے گی؟ ان باتوں کا علم تو شادی کے بعد ہی ہوتا ہے۔ تو شادی کرتے وقت کس طرح معلوم ہو گا کہ یہ مذکورہ تین قسم کی عورتوں میں سے کون سی عورت ہے؟ اس کا اندازہ اس کی ماں، بہنوں کو
[1] سنن أبي داود:کتاب النکاح، باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء، حدیث : 2050