کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 254
ہے۔ آج کل اس کا متبادل کنڈوم (ساتھی) وغیرہ ہیں۔ زیر بحث مخصوص صورت میں اس کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ (جیسا کہ اس پر مختصر بحث پہلے گزر چکی ہے)۔ مخصوص حالات کے بغیر، ضبط و لادت کے سارے طریقے ناجائز ہیں تا ہم اس کے لیے نس بندی یا عورت کی بچہ دانی کا نکال دینا یا مانع حمل دوائیوں کا استعمال شرعاً محل نظر ہے۔ نس بندی کا مطلب، آپریشن کے ذریعے سے مرد کے آلۂ تناسل کو افزائش نسل کی صلاحیت سے محروم کر دینا ہے۔ اس کے بعد مرد اس قابل نہیں رہتا کہ وہ عورت کو بار آور (حاملہ) کر سکے۔ بچہ دانی کے نکال دینے کا عمل عورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی اندام نہانی (رحم) سے بچہ دانی نکال دی جاتی ہے (یہ عمل بھی غالباً آپریشن ہی کے ذریعے سے ہوتا ہے) اس کے بعد عورت کو حمل ہی نہیں ٹھہرتا اور یوں وہ افزائش نسل کے قابل نہیں رہتی۔ مانع حمل دوائیوں کا استعمال بھی اس لیے جائز نہیں کہ ایک تو یہ انسانی صحت کے لیے مضرہیں۔ دوسرے مسلمانوں کو جو کثرت اولاد کی ترغیب دی گئی ہے اس کے منافی ہے۔ ضبط ولادت (برتھ کنٹرول) کے لیے آج کل یہ تینوں طریقے سرکاری طوراستعمال پر کیے جاتے ہیں۔ جن سے زنا کاری کو فروغ مل رہا ہے۔ اس لیے یہ تینوں طریقے حرام ہیں۔ البتہ عزل یا اس کا مذکورہ متبادل مخصوص صورتوں میں جائز ہے، مطلقاً اس کا بھی جواز نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭