کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 253
2۔ آج کل کی عورتیں زیادہ بچے پیدا کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں، محض اس لیے کہ زیادہ بچے جننے سے ان کے حسن و رعنائی میں کمی آ جائے گی، یا بعض وسائل کی کمی کا بہانہ پیش کرتی ہیں، یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ حکم شریعت اور اجر و ثواب کے مقابلے میں اپنے حسن و جمال کے برقرار رکھنے کو اہمیت دینا، ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ اسی طرح وسائل کا بہانہ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت اور اس پر اعتماد و توکل کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے، رزق تو ہمارے ہاتھ میں ہے، ہم تمھیں بھی اور تمھارے بچوں کو بھی (چاہے وہ کتنے ہی ہوں ) رزق دینے پر قادر ہیں، بلکہ سب کی رزق رسانی ہماری ذمے داری ہے۔
﴿نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ﴾ [الأنعام 151]
’’ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں اور بچوں کو بھی۔ ‘‘
﴿ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا ﴾ [ھود6]
’’زمین پر چلنے والے کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ ‘‘
بنابریں جنت کی خواہش مند عورت کو اولاد کی کثرت سے نہیں ڈرنا چاہیے، نہ از خود افزائش نسل کے خلاف مصنوعی طریقے ہی اختیار کرنے چاہئیں۔
البتہ کوئی عورت ایسی بیمار اور کمزور ہو جس کے لیے بار بار حمل اور وضع حمل کی تکلیف برداشت کرنا مشکل ہو، تو اس کو جان بچانے کے لیے عزل کے جائز طریقے اختیار کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے۔
عزل کا مطلب، ایسے طریقے اختیار کرنا ہے کہ جس سے مرد کی منی عورت کے رحم میں نہ جا سکے، جیسے اس کے لیے صدرِ اسلام میں مرد انزال کے وقت آلۂ تناسل عورت کی شرم گاہ سے باہر نکال لیتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کے باوجود اس کی اجازت دی