کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 251
دانشی صحیح ہے اور نہ یہ جلد بازی ہی مناسب ہے۔ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ بیٹی کا گھر آباد ہی رہے، یہ جذبہ تمام باتوں پر غالب رہے۔ اس کے لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ بچی کو ہر حالت میں سسرال ہی میں رہنے دیا جائے، اگر وہ خود آ جائے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اسے فوراً سسرال پہنچا دیا جائے اور مناسب انداز سے باہم پیدا ہونے والے اختلاف کو دور کرنے کی سعی کی جائے، بیٹی کی غلطی ہو تو اس کی سرزنش کی جائے، سسرال والوں کی غلطی ہو تو ان کو سمجھایا جائے۔ لیکن کسی حالت میں بھی بچی کو نہ خود گھر میں لا کر بٹھائیں اور نہ بچی کو گھر میں آنے دیں۔ بچی سے محبت کا صحیح تقاضا اس کے گھر کو آباد رکھنا ہے نہ کہ اس کی غلط طورپر حوصلہ افزائی کر کے اس کے گھر کو اُجاڑنا۔ شریعتِ اسلامیہ نے تو اس نکتے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق میں بھی، جن میں عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، یہ حکم دیا ہے کہ مطلقہ کو خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیاجائے، طلاق مل جانے کے باوجود والدین اس کو اپنے گھر مت لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ﴾ [الطلاق 1] ’’(طلاق کے بعد) ان کو ان کے (اپنے) گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو اور بات ہے (پھر نکالنے کا جواز ہے)۔ ‘‘