کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 250
’’ابو تراب، اٹھو! ابو تراب اٹھو! ‘‘[1]
اس وقت سے ان کی یہ کنیت مشہور ہو گئی اور چونکہ اس کنیت سے آپ کو خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اس لیے یہ کنیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بہت پسند تھی۔
ابوتراب کے معنی ہیں، مٹی والے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرشِ زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور چادر جسم سے اتر جانے کی وجہ سے جسم پر مٹی لگ گئی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ابوتراب (مٹی والے) سے خطاب فرمایا۔
اس واقعے میں یہ نہایت اہم سبق پنہاں ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اگر کوئی رنجش ہو جائے اور لڑکی کے گھر والوں کو اس کا علم ہو جائے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ بچی کو فوراً اپنے گھر لے آؤ، یا بچی از خود خاوند کے گھر سے نکل کر میکے چلی آئے۔ بلکہ عورت گھر ہی میں رہے، عورت کے گھر والے بھی اسے اپنے خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیں، البتہ پہل کر کے خاوند سے رابطہ کریں اور میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش کو دور کر دیں اور اس کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں۔
ہمارے ہاں ایسی صورت میں اس کے برعکس بالعموم یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ہیں یا بعض لڑکیاں اتنی جسارت کرتی ہیں کہ از خود اپنے میکے آ جاتی ہیں۔
ماں باپ بیٹی کی محبت میں اس کے اس غلط اقدام کی حمایت کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یوں معاملہ بگڑ جاتا ہے اور اختلاف کی چنگاری شعلہ بن جاتی ہے جس سے بعض دفعہ گھر ہی بھسم ہو کر رہ جاتا ہے۔
بیٹی کی یہ محبت نادانشی پر مبنی ہے اور اس قسم کا فیصلہ جلد بازی کا مظاہرہ ہے۔ نہ یہ بے
[1] صحیح البخاري:کتاب الصلاۃ، باب نوم الرجال في المسجد، حدیث : 441