کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 248
ان پر عمل کرنے سے بہو کے کردار ہی میں بہتری آتی ہے اور گھر والوں کی نظر میں اس کی عزت اور احترام میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن بار بار کے سمجھانے کے باوجود اگر بہو اپنی اصلاح نہیں کرتی تو اس سے یقیناً وہ گھر والوں کی نظر میں اس احترام سے محروم ہوجاتی ہے جو اس کا حق ہے اور جو اس کو اس گھر میں ملنا چاہیے۔ لیکن اس کی وجہ اس کی اپنی کوتاہی ہے جو کسی سمجھ دار بہو سے متوقع نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بہو کا یہ کردار بھی گستاخی پر مبنی ہےکہ ساس، جو بمنزلہ ماں ہے، اس کو ایک بات بار بار سمجھاتی ہے لیکن وہ اس کو اختیار نہیں کرتی، اس کے مطابق اپنی اصلاح نہیں کرتی تو یقیناً یہ گستاخی ہے جس کی نہ شرعاً اس کو اجازت ہے نہ اخلاقاً اور نہ مصلحتاً۔ مصلحت تو اسی میں ہے کہ وہ ساس کی سمجھائی ہوئی باتوں کو اہمیت دے، آخر اب دلھن نے اسی گھر میں رہنا ہے تو پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بَیْررکھنا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ ساس کا قرار واقعی احترام کرکے اس کے دل میں اپنا مقام اور اپنا وقار بنائے، یہی دانش مندی ہے، یہی عزت ووقار کا باعث اور امن و سکون کی خوش گوار فضا قائم کرنے اور قائم رکھنے کا ذریعہ ہے، اسی میں خاوند کی بھی رضا مندی ہے۔ اور اس کی رضا مندی احکام شریعت کی پابندی کے بعد، جنت کی ضمانت ہے۔