کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 247
ہاں اگر خاوند کے وسائل اس امر کی اجازت دیں کہ وہ الگ مکان لے سکتا ہے (کرائے پر یا خرید کر) اور وہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزارا کر سکتا ہے اور علیحدہ رہ کر والدین کی بھی حسبِ ضرورت اور حسبِ استطاعت خدمت کر سکتا ہے، تو شادی کے بعد علیحدگی میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں علیحدگی بہتر ہے۔ ایسی صورت حال میں والدین کو بھی بیٹے کو بہ رضا و رغبت علیحدہ رہنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ 6۔ بڑوں کے ادب و احترام کی بابت جو عرض کیا گیا ہے، ان میں ساس سسر (دولھا کے ماں باپ) سر فہرست ہیں۔ سسرال میں آنے کے بعد عورت (دلھن) کے لیے یہ بھی اس کے لیے ماں باپ کے درجے میں ہیں۔ اب اس گھر میں جس طرح یہ دولھا کے ماں باپ ہیں، دلھن کے بھی ماں باپ ہیں۔ ماں باپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والی دلھن کو بیٹی کی حیثیت دیں اوربیٹیوں والی شفقت اور پیار اسے دیں، اسی طرح عورت بھی ان کو زبان ہی سے امی، ابو نہ کہے بلکہ دل کی گہرائیوں سے ان کو ماں باپ والا احترام (پروٹو کول) دے، ان کے ساتھ گستاخانہ رویہ کسی حال میں بھی روانہ رکھے۔ ساس اس کو امور خانہ کے بارے میں جو ہدایات دے، ان کو بہ صمیم قلب قبول کرے، ان کو بروئے کار لانے میں عمداً کوئی کوتاہی نہ کرے۔ ساس کو بار بار سمجھانے کی ضرورت پیش نہ آئے، یہ ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے جب بہو ان ہدایات کی نہ پروا کرتی ہے اور نہ ان ہدایات کی روشنی میں اپنا رویہ تبدیل کرتی ہے۔ حالانکہ ان ہدایات کا مقصد عام طور پر بہو کی اصلاح، گھر کی اصلاح اور روز مرہ کے معمولات میں پیش آنے والی کوتاہیوں کی اصلاح ہوتی ہے، ان ہدایات کی پابندی اور سنجیدگی سے