کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 246
بھائیوں کے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں، بچوں کا آپس میں مل کر کھیلنا کودنا اور نادانی اور ناسمجھی میں ایک دوسرے کو زک پہنچانا، بچوں میں معمول کی بات ہوتی ہے۔ چھوٹوں پر شفقت کا تقاضا ہے کہ بچوں کی لڑائی کو ایسا ہی سمجھا جائے جیسے بچپنے میں حقیقی بہن بھائی ایک دوسرے کو مار پیٹ لیتے ہیں یا زیادہ تیز طرار بچہ دوسرے بھولے بھالے بھائی کی چیزیں چھین لیتا یا زیادتی کرتا ہے تو ان کو نا سمجھ سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے۔ یہی رویہ سارے بھائیوں کے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنانا ضروری ہے، سب کو اپنے ہی بچوں کی طرح سمجھیں اور دیکھیں اور ان کی آپس کی باہمی معصومانہ لڑائیوں کو نظر انداز کریں اور ان کی لڑائی کو بڑوں کی لڑائی میں تبدیل نہ کریں اور نہ ہونے دیں۔ اس رویے کے اپنانے میں بڑوں کے ادب و احترام اور خوش اخلاقی و خوش زبانی کا بھی بڑا دخل ہے، کوئی بھی عورت ان کے تقاضوں سے بھی کبھی غفلت نہ برتے بلکہ ان خوبیوں کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ اور زندگی کا معمول بنائے۔ یہ اللہ رسول کا بھی حکم ہے اور حکمت و دانش کا مظہر بھی۔ جس کے اختیار کرنے میں آخرت کی بھی بھلائی ہے اور دنیوی زندگی میں خیر اور فلاح کاذ ریعہ بھی۔ اللہ کی نظر میں بھی پسندیدگی کا باعث ہے اور خاندان میں بھی عزت اور نیک نامی کا ذریعہ۔ وَفَّقَ اللّٰہُ لَجِمَیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی۔ 5۔ اگر خاوند کے وسائل الگ گھر لے کر الگ رہنے کے متحمل نہیں ہیں تو عورت خاوند کو کبھی بھی اس پر مجبور نہ کرے، بلکہ مذکورہ ہدایات کی روشنی میں مشترکہ طور پر ہی گزارا کرے تا آنکہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرما دے۔