کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 243
قائم رکھنا ہے، پرانے گھر کو بھول جانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت یہ سمجھے کہ اب میرا جینا اور مرنا اس نئے گھر کے ساتھ ہی وابستہ ہے، اب میں نے اسی کو سنوارنا اور سنبھالنا ہے۔
لیکن اس جذبے کو رُو بہ عمل لانے اور اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے چند باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔
اول، یہ کہ اس گھر کے عسر ویُسرکو برداشت اور اس کی اونچ نیچ کو انگیز کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی چھوٹی چھوٹی باتیں بڑھا چڑھا کر ماں باپ تک نہ پہنچائی جائیں، چھوٹی موٹی باتیں ہرگھر میں ہوتی ہیں حتیٰ کہ ماں بیٹیوں کے درمیان اور باپ بیٹوں کے درمیان اور بھائی بہنوں کے درمیان بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اگر ساس بہو، یا بھاوج نندوں کے درمیان یا میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں تو یہ کوئی نہ انہونی بات ہے کہ ماں باپ کواس سے ضرور آگاہ کیا جائے اور نہ ان کی ایسی اہمیت ہی ہے کہ ماں باپ کے علم میں لانا ضروری ہو۔ بلکہ یہ رویہ سخت خطرناک اور آباد کاری کے منافی ہے۔
دوم، یہ کہ عورت اس نئے گھر کے ماحول کوسمجھے اور اپنے کو اس ماحول میں پوری سنجیدگی سے ڈھالے، ماں باپ کےگھر میں وہ جو کام کرتی تھی، وہ یہاں اگر نہیں ہوتے تو ان کو یہاں کرنے پر اصرار نہ کرے اور جو کام اس نے اپنے گھر میں کبھی نہیں کیے لیکن یہاں وہ کیے جاتے ہیں تو ان کے کرنے میں تأمل یا گریز نہ کرے، بشرطیکہ ان میں شریعت سے تجاوز نہ ہو۔
اسی طرح ماں باپ کے گھر میں اسے جو سہولتیں میسر تھیں، نئے گھر میں وہ سہولتیں کم ہیں یا ان کا فقدان ہے، تو اس سے نہ گھبرائے اور نہ پریشان ہو اور نہ اس کی وجہ سےماں باپ کو کوسے۔ بلکہ اللہ سے دعائیں کرے اور بہتری کے لیے مل جل کر کوششیں جاری