کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 241
1۔ مذکورہ آیت و حدیث پر عمل کرتے ہوئے برائی کو بھلائی سے ٹالے، نفرت کے بجائے محبت و اپنائیت کا مظاہرہ کرے، شفقت و نرمی کو معمول بنائے۔
2۔ بیٹے کا گھر آباد کرنے کی نیت سے خوب دیکھ بھال کر دلھن کو گھر میں لا کر رکھا ہے، اب گھر کو آباد رکھنے کی نیت کرلے اور اس کے جو تقاضے ہیں ان کو بروئے کار لائے۔
3۔ بہو کی خوبیوں کو سراہے، کوتاہیوں سے در گزر کرے۔ جو کوتاہیاں سمجھانے سے دو رہو سکتی ہیں، اسے سمجھا کر دور کرنے کی مخلصانہ اور ہمدردانہ کوشش کی جائے، بار بار سمجھانے میں بھی گرانی محسوس نہ کرے، اس کی ناسمجھی پر غصے اور ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے چھوٹوں پر شفقت کرنے کے جذبے کو توانا اور برقرار رکھے۔
4۔ بہو کو غیر نہ سمجھے بلکہ بیٹیوں کی طرح اسے عزیز رکھے، اسے بیٹیوں والا پیار اور شفقت دے، بیٹیوں کی غلطیوں کو جس طرح بار بار کرنے کے باوجود نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بہو کی غلطیوں کو بھی یہی حیثیت دی جائے۔
5۔ اس میں کھانے پکانے کی صحیح مہارت نہ ہو تو اس کی اس کو تاہی کو تبدریج دور کیا جائے، طعن و تشنیع کے بجائے اس کو نو آموز سمجھ کر خوش ذائقہ کھانوں کے طریقے اور ترکیبیں سمجھائی جائیں۔
6۔ بیٹا اگر بیوی سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت کرنا فطری بات بھی ہے اور اس کا حق بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جو محبت ہوتی ہے، اس کی کوئی دوسری مثال ناپید ہے۔ اس کی اس فطری محبت اور اس کے مظاہر کو برداشت کیا جائے، اس کو اپنا رقیب یا حریف سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔ آخر شادی کا مقصد بھی اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ محبت کریں ؟