کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 240
٭ گھر میں باپ ہے، جس نے دُکھ دیکھا نہ سُکھ، ہر حالت میں شب و روز محنت کرکے دولھا کی کفالت کی، اس کی تعلیم سے لے کر زندگی کی ہر ضرورت تک، اس نے وسائل مہیا کیے، آخر میں شادی کا بندو بست کیا۔ کیا اب دولھا میاں کو یہ زیبا دے گا کہ شادی کے بعد وہ اپنے محسن باپ سے ادب و احترام اور حسن سلوک کے تقاضوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے؟
٭ دولھا کی بہنیں ہیں یا چھوٹے بھائی ہیں، ان کی بھی محبت کے کچھ تقاضے ہیں، جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چکی کے تو دو ہی پاٹ ہوتے ہیں جن کے درمیان آنے کا محاورہ مشہور ہے، لیکن یہاں تو کئی پاٹ ہیں جن میں شادی کے بعد ایک مرد کو خواہی نخواہی آنا پڑتا ہے۔ ان پاٹوں کی زد میں آنے سے بچاؤ کے لیے اسے حکمت و دانش سے کام لینا پڑے گا جس میں شریعتِ اسلامیہ اس کی پوری مدد کرتی ہے اور اگر مرد شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سب کے حقوق کی ادائیگی میں۔ حسب مراتب۔ مخلص ہوگا اور کسی کے ساتھ بھی تجاوز کرنے کی نیت نہیں رکھے گا تو یقیناً اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا اور وہ اس امتحان میں سرخ رُو رہے گا اور اس پل صراط کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
3۔ ساس کا کردار
تیسرے نمبر پر دولھا کی ماں کا کردار ہے جس کو ساس کہا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں ساس بہو کا روایتی کردار مشہور ہے اور اس کے بارے میں مختلف حکایتیں اور کہاوتیں عام ہیں۔ ساس حسب ذیل تجاویز یا تدابیر کو اختیار کرے تو یقیناً حسن کردار کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں :