کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 239
’’اس کا ہم (مسلمانوں ) سے تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت (رحم) نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا ادب و احترام ملحوظ نہیں رکھتا۔ ‘‘ 2۔ مرد کے لیے حکمت و دانش کی ضرورت دوسرے نمبر پر خاوند کا کردار ہے۔ جب نئی نویلی دلھن ایسے گھر میں آتی ہے جہاں شوہر کے والدین، اس کے بہن بھائی اور بھابھیاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تو پھر مرد کا امتحان شروع ہوجاتا ہے اس طرح کے مشترکہ خاندان میں عورتوں (ساس، نندوں وغیرہ) کے ساتھ ٹکراؤ کا خطرہ ہر وقت، سر پر لٹکی تلوار کی طرح رہتا ہے۔ کسی وقت ساس بہو کے درمیان تکرار ہوجاتی ہے تو کبھی نندوں کے ساتھ نوک جھونک، یا بھابھیوں یا ان کے بچوں کے ساتھ کوئی معاملہ۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مرد کا خصوصی تعلق ہے، گو اس کی اہمیت و نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، لیکن ہر ایک کے ساتھ تعلق کے خصوصی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ٭ ایک عورت اس کی بیوی بن کر اس کے پاس آئی ہے، وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ناز و نعمت میں پلی ہے، وہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور ان کے دلوں کا ٹکڑا رہی ہے، اس نئے گھر میں اس کو ماں باپ کی محبت و شفقت کا بدل بلکہ نعم البدل ملنا چاہیے، (شریعت کا حکم بھی یہی ہے)۔ ٭ اس مرد کی ماں ہے، جس نے اس کی خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کی ہیں، اس کو پال پوس کر جوان کیا ہے، پھر اس کی حسب خواہش اس کی جوانی کی آرزو(شادی کرکے) پوری کی ہے۔ بیوی کے آجانے کے بعد بھی ضروری ہے کہ ماں کی خدمت، حسن سلوک، ادب و احترام میں کوئی کمی نہ آئے۔