کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 238
قرینہ و سلیقہ۔
5۔ بعض مائیں پیشگی ہی اپنی بچی کو اس طرح کی الٹی پٹی پڑھا دیتی ہیں کہ دیکھنا وہاں کسی سے دب کر نہیں رہنا، اپنا رعب جمانے کی کوشش کرنا، کسی کی ماتحتی قبول نہیں کرنا، وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کو نئے گھر میں حکمت و دانش، پیار محبت اور تواضع و انکسار کے ذریعے سے اپنا جو مقام بنانا ہوتا ہے، اس سنہری موقعے کو وہ ضائع کر دیتی ہے اور ماں یا سہیلیوں کے پڑھائے ہوئے سبق پر عمل کرتے ہوئے محاذ آرائی کی فضا یا سرکشی کی سی صورت پیدا کر دیتی ہے اور یوں بنا بنایا کھیل سب بگڑ کر رہ جاتا ہے اور حسین خوابوں کا شیش محل چکنا چور ہوجاتا ہے۔
اس لیے ماؤں کو اس قسم کا سبق بچیوں کو ہرگز نہیں پڑھانا چاہیے بلکہ اس کے برعکس اس کو برائی کو اچھائی سے ٹالنے کی اور عارضی تکلیفوں کے مقابلے میں صبر و حکمت سے کام لینے کی، بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ہمیں انھی باتوں کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ﴾ [حمٓ السجدۃ 34]
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دور کرو (ایسا کرو گے تو) پھر وہی جس کے اور تمھارے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوجائے گا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ ‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیرَنَا)) [1]
[1] جامع الترمذي، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، حدیث : 1919