کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 235
مال و دولت کی فروانی، ہلاکت کا پیش خیمہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ازوج مطہرات، دیگر اہل بیت اور صحابۂ کرام کے مزاج و معاشرت کی اس سادہ اور دنیا کے اسبابِ راحت و آسائش سے بے نیازی کی مذکورہ تفصیلات یہاں بیان کرنے سے اصل مقصد یہ ہے کہ آج کل ہمارے رہن سہن، معاشرت اور طرز زندگی میں عیش و عشرت اور تکلفات کی جو ارزانی ہوگئی ہے اور آرائش و زیبائش کا جو طوفان برپا ہے، اس کا ادنی سا تعلق بھی حضور کے طرز زندگی اور آپ کی معاشرت سے ہے؟ یقیناً نہیں ہے۔ آپ نے ان تکلفات کو، جنھیں ہم نے زندگی کے لوازمات بنا لیا ہے، قطعاً پسند نہیں فرمایا ہے، بلکہ آپ نے تو دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں کی فراوانی کو تباہی و بربادی کاسبب بتلایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: ((فَوَاللّٰہِ مَا الْفَقْرُ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنْ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمْ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوھا کَمَا تَنَافَسُوھا وَتُلْھیَکُمْ کَمَا أَلْہَتْہُمْ)) ’’اللہ کی قسم! مجھے تمھارے فقر سے کوئی اندیشہ نہیں، مجھے اندیشہ ہے تواس بات سے کہ تم پر دنیا فراخ کر دی جائے گی جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کر دی گئی تھی۔ پس تم بھی اس دنیا میں اسی طرح رغبت کرو گے جیسے انھوں نے رغبت کی تھی اور یہ رغبت پھر تمھیں بھی اسی طرح ہلاک کردے گی جیسے اس نے ان کو ہلاک کردیا تھا۔ ‘‘ [1]
[1] صحیح البخاري، حدیث:کتاب الرقاق، باب مایحذر من زھرۃ الدنیاوالتنافس فیہا، حدیث: 6425