کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 233
ازار( تہ بند کی جگہ استعمال ہونے والی چادر) تھی، تو کسی کے پاس اوپر (قمیص کی جگہ) لینے والی چادر۔ انھی چادروں کو انھوں نے اپنی گردنوں سے باندھ رکھا تھا، پس وہ چادر کسی کی نصف پنڈلیوں تک پہنچتی تھی اور کسی کے ٹخنوں تک، اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے سیمٹے رکھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں اس کا قابل ستر حصہ ظاہر نہ ہوجائے۔ ‘‘[1]
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ ان کی بابت صراحت فرماتے ہیں :
’’اہل صفہ، اسلام کے مہمان تھے، جن کا (مدینہ میں ) کوئی گھر بار تھا نہ مال ان کے پاس تھا اور نہ ان کا کوئی کفیل ہی تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا، تو آپ ان کی طرف بھیج دیتے اور جب کوئی ہدیہ آتا تو اس میں ان کو بھی شریک فرما لیتے، یعنی کچھ آپ اپنے لیے رکھ لیتے اور کچھ ان کو دے دیتے۔ ‘‘ [2]
اسی طرح اہل اسلام بھی ان کی مدد فرماتے اور بعض حضرات تو انھی کی خاطر کسب معاش کرتے اور اس سے ان کو غلّہ فراہم کرتے، جیسے ایک روایت میں ستر انصاریوں کی بابت آتا ہے۔ کہ وہ رات کو قرآن پڑھتے اور آپس میں اس کا درس و مذاکرہ کرتے اور دن کے وقت یہ لوگ مسجد نبوی کے لیے پانی فراہم کرتے اور لکڑیاں جمع کرکے انھیں فروخت کرتے اور اس رقم سے اہل صُفّہ کےلیے کھانے پینے کا سامان خریدتے۔ [3]
ایک اور حدیث میں ہے کہ اہل صفہ فقیر قسم کے لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ فرماتے کہ جس کے پاس دو ں کا کھانا ہو تو تیسرا اہل صفہ میں سے لے جائے ور جس کے پاس
[1] صحیح البخاري:کتاب الصلاۃ، باب نوم الرجال فی المسجد:حدیث: 442
[2] صحیح البخاري: کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی:حدیث 6452
[3] صحیح مسلم: بعد الحدیث:کتاب الجہاد باب ثبوت الجنة للشہید:حدیث1902