کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 232
ڈھانکتیں تو پیروں تک نہیں آتا تھا اور پیر ڈھانکتیں تو سر تک نہیں آتا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا:
((لَیْسَ عَلَیْکِ بَاْسٌ، إِنَّمَا ھُوَ أَبُوکِ وَغُلَامُکِ)) [1]
’’سر یا پیر ننگے رہنے میں تیرے لیے کوئی حرج کی بات نہیں، اس لیے کہ تیرے سامنے صرف تیرے باپ یا غلام ہی ہیں۔ ‘‘
یعنی تیرے لیے ان سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، اس لیے ان کے سامنے سر یا پیروں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔
اس واقعے سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بے سروسامانی کا بھی بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی صورت حال ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی تھی، جن کے چولہوں میں دو دو مہینے آگ ہی نہیں جلتی تھی، صرف پانی یا کھجوروں سے گزارا کرتی تھیں۔ [2]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’مدینہ آنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے تک، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (ازواج مطہرات وغیرہ) نے مسلسل تین راتیں سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ ‘‘[3]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مدرسے کے اولین طلبائے علم، جنھیں اصحاب الصُّفّہ کہا جاتا ہےکی حالت بھی ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے ستر اصحابِ صُفّہ کو دیکھا، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ جس کے پاس بڑی چادر ہو (جس سے اس کا پورا جسم ڈھک جائے) کسی کے پاس
[1] سنن أبي داود:کتاب اللباس، باب في العبد ينظر إلي شعر مولاته، حدیث4106
[2] صحیح البخاري: کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی: حدیث: 6459
[3] صحیح البخاري:کتاب الرقاق، کیف کان عیش النبی:حدیث: 6454