کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 231
کے درمیان کوئی چیز (گدّا، چادر وغیرہ) نہیں تھی، آپ کے سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور آپ کے پیروں کے پاس ایک درخت کے کچھ پتوں کا ڈھیر تھا، آپ کے سر کے پاس ایک کھال لٹکی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ چٹائی کے نشانات آپ کے پہلوؤں پر ثبت ہیں۔ تو میں رو پڑا، آپ نے پوچھا: ’’عمر کیوں روتے ہو؟‘‘ میں نے کہا، اللہ کے رسول! قیصر و کسری جس شان و شوکت میں ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں (پھر بھی آپ کی یہ بے سرو سامانی؟) تو آپ نے فرمایا: ’’عمر! کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے لیے دنیا ہی دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ہو۔ ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے (حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سروسامانی کو دیکھ کر عرض کیا) اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمائیے! وہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے، اس لیے کہ فارس اور روم والوں پر تو فراخی کی گئی ہے اور دنیا کا مال ان کو خوب دیا گیا ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے، میری یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے اور آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے اور فرمایا: ’’اے ابن الخطاب! کیا تم ابھی تک اس کی بابت شک میں ہو (کہ آخرت، دنیا سے بہتر ہے؟) یاد رکھو! یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کو ان کی نعمتیں دنیا ہی میں دے دی گئی ہیں (آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ )‘‘
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ معاشرت، دنیا سے بے رغبتی، بے سروسامانی اور فکر آخرت کا بیان ہے۔ آپ کی ازواج مطہرات، آپ کی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہرا اور دیگر صحابۂ کرام کا بھی یہی حال تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت آتا ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے ایک غلام، جوان کوہبہ کرنا تھا، لے کر ان کے گھر آئے، تو ان کے سر پر جو کپڑا تھا وہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ پیروں تک پورا نہیں آتا تھا۔ چنانچہ وہ اس کپڑے کے ساتھ اپنا سر