کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 230
))مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُھرَۃٍ فِی الدُّنْیَا، اَلْبَسَہُ اللّٰہُ ثَوْبَ مَذَلَّۃٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ أَلْہَبَ فِیہِ نَارً))[1]
’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکائے گا۔ ‘‘
شُہرت کے لباس سے مراد، فخر و تکبر اور ریا کاری کی نیت سے بیش قیمت لباس کا پہننا ہے۔ ورنہ فی نفسہ قیمتی لباس پہننا ممنوع نہیں جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ازواج مطہرات و دیگر اہل بیت اور صحابہ کرام کی سادہ معاشرت کے چند نمونے:
((عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ (دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) وَإِنَّہُ لَعَلٰی حَصِیرٍ مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَہُ شَیئٌ وَتَحْتَ رَأْسِہِ وِسَادَۃٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُۃ لِیفٌ وَاِنَّ عِنْدَ رِجْلَیْہِ قَرَظًا مَصْبُوْرًا، وَعِنْدَ رَأَسِہِ أَھَبٌ مُعَلَّقَۃٌ، فَرَأَیْتُ أَثَرَ الْحَصِیرِ فِی جَنْبِہِ فَبَکَیْتُ، فَقَالَ مَا یُبْکِیکَ؟ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہ إِنَّ کِسْرٰی وَ قَیْصَرَ فِیمَاھُمَا فِیہِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللّٰہ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ لَہُمُ الدُّنْیَا وَلَنَا الْآخِرَۃُ‘ وَفِی رِوَایَۃٍ: فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أُدْعُ اللّٰہ فَلْیُوَسِّعْ عَلٰی أُمَّتِکَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالروم قَدْ وُسِّعَ عَلَیْہِمْ وَاُعْطُوا الدُّنْیَا وَھُمْ لَا یَعْبُدُونَ اللہ فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ أَوَفِی ھٰذَا أَنْتَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ إِنَّ أُولٰئِکَ قَوْمٌ قَدْ عُجِّلُوا طَیِّبَاتِھِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا)) [2]
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی ازواج مطہرات سے ناراضی اور علیحدگی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ ایک چٹائی پر استراحت فرما ہیں، آپ کے اور چٹائی
[1] سنن ابن ماجہ:کتاب اللباس، باب من لبس شہرۃ من الثیاب:حدیث:3607
[2] صحیح البخاري:کتاب النکاح، باب موعظۃ الرجل ابنته لحال زوجھا: حدیث:5191