کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 23
دولڑکیوں کی کفالت وتربیت کرنے میں کامیاب ہوجائے، حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجائیں، میں اور وہ جنت میں یوں چپک کر داخل ہوں گے(آپ نے درمیانی اور شہادت کی انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کرکے بتایا) عورت کے’’ درمکنون‘‘ہونے کا معنی یہ ہے کہ اپنے کی چاردیواری میں پورے حشمت ووقار کے ساتھ ایک ملکہ کے طور پر رہے، سیاستِ منزلیہ خاتون ہی کے مناسبِ حال اور متناسقِ طبع ہے، جبکہ ہر قسم کی خارجی سیاست مرد کو تفویض کی گئی ہے، شریعت اس ’’درمکنون‘‘ کو گھر کےاندرو باہر کس روپ میں دیکھنا چاہتی ہے؟ ﴿ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ﴾ [ الاحزاب :53] ترجمہ:’’اور جب تم اُن (عورتوں ) سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو، یہ تمہارے اور اُن کے دلوں کی پاکیزگی کا باعث ہے۔ ‘‘ ملاحظہ کیجئے کہ اخلاقی بگاڑ سے بچاؤ کیلئے پردہ کیسی ڈھال ہے، بلکہ حفاظت وحصار کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔ 2۔ شریعت مطہرہ اس ’’درمکنون‘‘ کو اجنبی مردوں سے بوقت ضرورت بات کرنے کا ادب سکھلاتی ہے: ﴿فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾[ الاحزاب :32] ترجمہ:نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی براخیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو‘‘۔ ثابت ہوا کہ عورت کاپردہ میں ہوتے ہوئے، نرم لہجے سے بات کرنا بھی فتنہ انگیزہے (لہٰذا اﷲتعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا)۔