کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 229
))اِنَّ الْبَذَاذَۃ مِنَ الْأِیْمَانِ، اِنَّ الْبَذَاذَۃَ مِنَ الْإِیْمَان(([1] ’’بذاذات(لباس اور رہن سہن میں سادگی) ایمان کا حصہ ہے، بذاذت ایمان کا حصہ ہے۔ ‘‘ قال، البذاذۃ القشافۃ، یعنی التقشُّف۔ حدیث کے راوی نے بَذَاذَۃ کے معنی کیے ہیں قشافۃ۔ اورقَشَافَۃ یا تقشفْ کا مطلب ہے، لباس اور رہن سہن میں سادگی اختیار کرنا۔ گویا بذاذت تَنَعُّم کے الٹ ہے۔ تَنَعُّم کا مطلب ہے لباس اور رہن سہن میں تکلف اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرنا، اور بذاذت کا مطلب اس کے برعکس سادگی اور فقیر منشی اختیار کرنا۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ))وَمَنْ تَرَکَ لُبْسَ ثَوْبِ جَمَالٍ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ تَوَاضُعًا کَسَاہُ اللّٰہُ حُلَّۃَ الْکَرَامَۃِ(([2] ’’جس نے طاقت رکھنے کے باوجود تواضع کے طور پر خوب صورتی کا لباس پہننا چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ اسے (جنت میں ) عزت کا جوڑا پہنائے گا۔ ‘‘ یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے اسے ضعیف سنن أبی داود (رقم: 4348)میں درج کیا ہے، لیکن اس میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، حدیث مذکور، جس میں بذاذت کو ایمان کا حصہ کہا گیا ہے، اس کا مفہوم بھی یہی ہے۔ اس لیے اس سے استدلال کرنا جائز ہے۔ بہر حال اس میں بھی تواضع کے طور پر سادگی اختیار کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] سنن أبی داد: أول كتاب الترجّل، حدیث: 4161 [2] سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب من كظم غيظا، حدیث: 4778