کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 228
دنیا دار اور ہر طرح کے وسائل سے بہرہ ور ہوں گے۔ رہن سہن میں نازو نعمت کے بجائے، تواضع اور سادگی پسندیدہ ہے ))عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا بَعَثَ بِہٖ إِلَی الْیَمَنِ قَالَ، إِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ فَإِنَّ عِبَادَاللّٰہِ لَیْسُوا بِالْمُتَنَعِّمِینَ))[1] ’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یمن بھیجنے لگے تو آپ نے فرمایا: نازو نعمت کی زندگی سے اجتناب کرنا، اس لیے کہ اللہ کے بندے نازو نعمت اختیار کرنے والے نہیں ہوتے۔ ‘‘ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نازو نعمت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ نازو نعمت سے کیا مراد ہے؟ پر تکلف زندگی، ہر وقت دنیاوی آسائشوں کی طلب میں رہنا، لباس فاخرہ زیب تن کیے رکھنا اور لباس کی کریز کوخراب نہ ہونے دینا، شاہانہ کروفر اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرنا، وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں جو چیز پسندیدہ اور ایک مومن کی شان کے زیادہ لائق ہے، اسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے جو ابو امامہ حارثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ))اَلْبَذَاذَۃُمِنَ الْاِیْمَانِ(([2] ’’بذاذت (لباس اوررہن سہن میں سادگی) ایمان کا حصہ ہے۔ ‘‘ اور ابو داود میں یہ لفظ تاکید کے طور پر بہ تکرار ہے:
[1] مسند أحمد، (5؍243)، و شعب الأیمان، (8؍246 ومشکاۃ، الرقاق، حدیث:5262، وقال الألباني إسنادہ جید، (3؍1448)۔ [2] سنن ابن ماجہ، کتاب الزهد، باب من لایؤبہ، حدیث: 4118، الصحیحۃ للألباني، رقم: 341