کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 227
’’دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ ہوں گی، اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر لکھ دیتا ہے اور جس میں وہ نہیں ہوں گی، اسے اللہ شاکر و صابر نہیں لکھتا۔ جوشخص اپنے دین کے معاملے میں ایسے شخص پر نظر رکھتا ہے جو اس سے بڑھ کر ہے، پھر اس کی اقتداء کرتا ہے۔ اور دنیا کے معاملے میں اس شخص کو دیکھتا ہے جو اس سے کمتر حیثیت کا حامل ہے، پھر اس بات پر اللہ کی حمد کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو اس پر فضیلت عطا کی ہے۔ (ان دو خصلتوں کے حامل شخص کو) اللہ تعالیٰ شاکر اور صابر لکھ دیتا ہے۔ اور جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کمتر (دیندار) کو دیکھتا ہے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے برتر (مال دار) کو دیکھتا ہے اور پھر جو اسے (دنیا کے مال و اسباب سے) میسر نہیں ہے اس پر افسوس کا اظہار کرتا ہے، تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نہ شاکر لکھتا ہے اور نہ صابر۔ ‘‘ اس حدیث میں مذکورہ دو خصلتوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کا نتیجہ بتلایا گیا ہے جس میں پہلی دو خصلتیں ہوں گی، وہ یقیناً ایک تو دین و شریعت کی پابندی کا بھی زیادہ اہتمام کرے گا، کیونکہ اس کی نظر اپنے سے زیادہ متقی و پارسا شخص پر ہوگی اور وہ اسی کو نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھ کر اس کی اقتداء کرے گا۔ دوسرے، وہ شخص اللہ کا شکر بھی خوب ادا کرے گا کیونکہ وہ ہر وقت ان کو دیکھے گا جو اس سے بھی زیادہ محروم قسم کے لوگ ہیں، تو قدرتی طور پر ہر وقت اس کی زبان کلمات حمد سے تر اور اس کا دل اعتراف نعمت سے معمور رہے گا۔ اس کے برعکس جس شخص کے اندر یہ دو خصلتیں نہیں ہوں گی، وہ ایک تو دین و شریعت کی پابندی کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے سامنے وہ نمونے ہوں گے جو دین کے زیادہ پابند نہیں ہوں گے۔ دوسرے، یہ شخص ہر وقت اپنی محرومی ہی کا گلہ اور اللہ کی نعمتوں کی ناقدری ہی کرے گا، کیونکہ اس کے آئیڈیل وہ لوگ ہوں گے جو محض