کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 223
نوحہ و ماتم نہیں کیا۔ حتیٰ کہ خاوند جب گھر آتا ہے تو پہلے ایک خدمت گزار بیوی کی طرح خاوند کی تمام ضروریات کا اہتمام کرتی ہیں اور اس کے بعد خاوند کو ایک نہایت اچھوتے انداز سے بچے کی وفات کی اطلاع دیتی ہیں۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ خاوند کی خدمت اور اسے آرام و سکون پہنچانا ایک مسلمان عورت کا اولین فرض ہے۔
2۔ گھر میں خاوند کے لیے سولہ سنگھار اور زیب و زینت کا اہتمام کرنا مستحسن ہے۔
3۔ ولادت کے بعد بچے کو کسی نیک آدمی کے پاس لے جا کر اس سے تحنیک کروانا(گھٹی دلوانا)چاہیے۔
4۔ مصیبت میں جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے۔
5۔ ایسا تعریض و کنایہ(توریہ) جائز ہے جس سے دوسرا شخص مغالطے میں پڑ جائے تاہم وہ جھوٹ نہ ہو۔ وغیرہ۔
19۔ شکر گزار عورت
مسلمان عورت کی ایک اہم صفت شکر گزاری ہے، یعنی عسر و یسر، خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں اللہ کا بھی شکر ادا کرے اور اپنے خاوند کی بھی شکر گزار ہو۔
آج کل ہماری معیشت و معاشرت میں جو تکلفات در آئے ہیں، اس نے ہر مرد و عورت کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے کلمات تشکر ہماری زبان پر آتے ہی نہیں ہیں، نہ اللہ کے لیے اور نہ خاوند اور والدین کے لیے، حالانکہ انسان پر سب سے پہلے احسانات اللہ تعالیٰ کے ہیں، پھر والدین کے اور خاوند کے اور درجہ بدرجہ دیگر قرابت داروں کے۔ اللہ کے ساتھ ساتھ ان سب کا مرہون احسان رہنا نہایت ضروری ہے، ورنہ انسان ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ ناشکری بہت بڑا جرم ہے اور عورتوں کی اکثریت اسی ناشکری کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بنے گی۔
یہ موضوع چونکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن بد قسمتی سے جتنی زیادہ اس کی اہمیت ہے، اتنی ہی اس سے بے اعتنائی بھی عام ہے۔ اس لیے ہم اس پر قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا مناسب بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔