کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 222
اس نے اپنی امانت واپس لے لی ہے۔ ) یہ سن کر وہ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: (جب میں گھر آیا تو کچھ بتلائے بغیر) تو نے مجھے یوں ہی چھوڑے رکھا حتیٰ کہ میں ہم بستری تک سے آلودہ ہوگیا اور اس کے بعد تونے مجھے میرے بیٹے (کی وفات) کی خبر دی۔ (اس کے بعد) وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جو کچھ ہوا وہ بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر دعا فرمائی: اللہ تعالیٰ تم دونوں کے لیے تمھاری اس رات میں برکت عطا فرمائے۔ چنانچہ ام سلیم کو حمل قرار پا گیا۔ (راویٔ حدیث حضرت انس نے بیان کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، حضرت ام سلیم بھی (اپنے خاوند ابوطلحہ کے ہمراہ) آپ کے ساتھ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کا معمول تھا کہ جب (سفر سے) مدینہ واپس تشریف لاتے تو رات کو تشریف نہ لاتے۔ جب یہ قافلہ مدینے کے قریب پہنچا تو ام سلیم کو درد زہ (زچگی کے عین وقت جو درد ہوتا ہے) شروع ہوگیا چنانچہ ابوطلحہ ان کی خدمت کے لیے رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ پھر وقتی طور پر درد زہ رک گیا اور ابوطلحہ بھی مدینہ آگئے، وہاں آ کر ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، پس میری والدہ ام سلیم نے مجھے کہا: اس کو اس وقت تک کوئی دودھ نہ پلائے جب تک تم صبح صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش نہیں کر دیتے۔ پس صبح ہوتے ہی میں اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آگے باقی حدیث بیان کی (جو پہلے گزر چکی ہے)۔ [1] اس حدیث سے ہمیں معاشرتی زندگی کے لیے بہت سی ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً 1۔ ایک صابر و شاکر عورت کا کردار کہ بچہ فوت ہوگیا لیکن کوئی جزع فزع، واویلا، بین اور
[1] ریاض الصالحین: باب الصبر، بحوالہ صحیح البخاري، حدیث: 5470 ،1301، و صحیح مسلم، حدیث: 2144۔