کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 221
حضرت انس کی والدہ نے اس کے بعد ابوطلحہ سے نکاح کر لیا۔ ) اس بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور کچھ کھجوریں بھی ساتھ دے دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس کے ساتھ کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، کچھ کھجوریں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں لے لیں اور ان کو منہ میں چبایا، پھر وہ اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دیں، اور اس کو (یوں ) گھٹی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ [1]
اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عینیہ نے کہا: انصار کے ایک آدمی نے انھیں بتایا کہ میں نے (اس) پیدا ہونے والے (بچے) عبداللہ کی اولاد سے نو لڑکے دیکھے، سب کے سب قرآن کے قاری تھے۔ [2]
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا، جو ام سلیم کے بطن سے تھا، فوت ہوگیا تو ام سلیم نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی بابت مت بتلانا میں خود ہی ان کو بتلاؤں گی۔ چنانچہ ابوطلحہ آئے، ام سلیم نے رات کا کھانا ان کے سامنے رکھا، انھوں نے کھایا پیا، پھر پہلے سے کہیں زیادہ بن سنور کر ان کے پاس آئیں، انھوں نے ان سے ہم بستری کی، جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ خوب سیر ہوگئے اور ہم بستری کر لی ہے تو کہا: اے ابوطلحہ! ذرا بتلاؤ! اگر کچھ لوگ کسی گھر والوں کو کوئی چیز عاریۃً (عارضی طور پر) دیں، پھر وہ اپنی عاریت کے طور پر دی ہوئی چیز واپس مانگیں تو کیا ان کے لیے جائز ہے کہ وہ دینے سے انکار کر دیں ؟ ابوطلحہ نے جواب دیا: نہیں۔ پس ام سلیم نے کہا: تم اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ سے ثواب کی امید رکھو! (یعنی تمھارا بیٹا بھی، جو اللہ ہی کا دیا ہوا تھا،
[1] صحیح بخاری: کتاب العقیقة، باب تسمیۃ المولود۔ حدیث نمبر:5470،
صحیح مسلم: کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود: حدیث:2144
[2] صحیح بخاری: کتاب الجنائز، باب من لم یظہرحزنہ عندا لمصیبۃ، حدیث نمبر1301